تحریر : @_The_Salaar

اہل مغرب کا دعویٰ ہے کہ مرد و عورت کے درمیان کسی بھی قسم کا جسمانی یا دماغی فرق نہیں ہے بلکہ دونوں ہر اعتبار سے برابر ہیں، ہر وہ کام جو مرد کر سکتا ہے عورت بھی کر سکتی ہے، لہٰذا زندگی کے تمام شعبوں میں دونوں کی برابر شرکت ہونی چاہیے اور ان دونوں صنفوں کو کام کا یکساں حق ملنا چاہیے، عورت کو پردہ کا پابند بنا کر گھر کی چہار دیواری میں مقید کرنا اور بیرونی کاموں ( سیاسی، سماجی اور معاشی سرگرمیوں) میں اسے شرکت کا موقع نہ دینا سراسر ظلم ہے،صنعتی شعبوں اور تمدنی و سماجی خدمات کے میدانوں میں عورت کی شرکت سے تمدنی ترقی کی رفتار بھی تیز ہوگی اور انہیں معاشی استقلال بھی حاصل ہوگا، مصنوعات اور چیزوں کی پیدوار میں بھی اضافہ ہوگا گھر کی آمدنی میں بھی افزائش ہوگی، خوشحالی بحال ہوگی، بیرونی حرکت و عمل کے دروازوں کو ان پر بند کر دینا ترقی اور تہذیب کے منافی ہے، عورت کی روپوشی اور خانہ نشینی سماج کے لئے بھی نقصان کا باعث ہے اور خود عورت کے لئے بھی.
ان کے لئے جواب ہے کہ :روحانیت کی دنیا میں قرب حق اور حسنِ عمل کے لحاظ سے مرد و زن کی حیثیت بالکل مساوی وبرابر ہے، نماز و روزہ، زکاۃ و حج اور دیگر عبادتیں جس طرح مرد کی قبول ہوتی ہیں، قبولیت کی تمام راہیں خواتین کے لئے بھی کھلی ہوئی ہیں،اور دیگر تمام حقوقِ انسانی جو مردوں کو حاصل ہیں عورتیں بھی ان سے استفادہ کرتی ہیں، یقیناً اسلام نے عورت کو جس بلندی اور عزت کی چادر سے نوازا ہے دنیا کے تمام مذاہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی، جس وقت اسلام کی آمد آمد ہوئی وہ ایسا دور تھا کہ جس میں عورت کو ذلیل کرنا سب سے زیادہ توقیر کا کام سمجھا جاتا تھا،بازار و مارکیٹ میں اس کی نیلامی ہوتی تھی اور اس کی قیمت کسی گری پڑی چیز سے زیادہ نہیں تھی یعنی دونوں صنفوں کو یکساں حقوق سے نوازا ہے، ہاں مرد و زن کی یہ مساوات دنیاوی معاملات اور دیگر انتظامی امور میں باقی نہیں ہے ،مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ عورت کو اس کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے، نہیں ہرگز نہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کا حق اور شایانِ شان یہی ہے کہ چونکہ شریعت نے دیگر عظیم الشان امور کا بوجھ اس کے کاندھوں پر ڈالا ہے اس لئے مزید بار کا مکلف بنانا "تکلیف مالا یطاق" ہو جائے گا. یہ کوئی پہلی نظیر نہیں ہے جس میں ایک کو دوسرے پر غلبہ حاصل ہے بلکہ ہر طبقے، ہر سماج، حتی کہ ہر مذہب میں اس کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں مگر دشمنان اسلام نے اسلام پر یلغار کرنے کے لئے صدیوں سے اس مسئلے کو اچھالا ہوا ہے اور اس کو اتنا عام کیا کہ غیر تو غیر بلکہ بہت سے اپنے بھی ان کے دام فریب میں آ کر اسلام کے نام پر اسی کے خلاف کمر بستہ رہتے ہیں اس کی مثال ملاحظہ کریں، باپ اور بیٹے دونوں بہ حیثیت عبد بالکل ایک ہیں، عند اللہ أعمال کی مقبولیت کے معیار سے دونوں بالکل مساوی ہیں، لیکن اس دنیا کے لئے شریعت ہی کا حکم ہے کہ باپ افسر یعنی حاکم بن کر رہے اور بیٹا اس کے ماتحت ہوکر، باپ حکم دے اور بیٹا بسر و چشم اسے بجا لائے، اسی طرح معاشرے کے انتظامی امور و مشن میں مرد کو عورت پر تفوق و غلبہ حاصل ہے، اور یہ ویسے ہی نہیں ہے بلکہ اس کے پس پردہ اللہ تعالیٰ کی عظیم حکمت و مصلحت پنہاں ہے، کیونکہ وہی تو فاطر و خالق ہے، اور وہی انسان کی طاقت اور کمزوری سے باخبر ہے، اور وہی جانتا ہے کہ کس صنف کے اندر کون سی خصوصیات ودیعت کی گئ ہیں، ان ہی خصوصیات کے مطابق ہر صنف کو اس کی طاقت کے بقدر افعال و امور کا مکلف بنایا ہے اور جو جس لحاظ سے جو کام کر سکنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس کے ذمہ وہی کام سپرد کیا ہے.
اسلام دین فطرت ہے یعنی اسلام نے انسانوں کو ٹھیک انہیں امور کا مکلف بنایا ہے جو وہ کر سکتے ہیں اور جن کی تقسیم میں ظلم اور جانبداری کا شائبہ بھی نظر نہیں آتا ہے، اور یہ قرآن کا فرمان ہے اور قرآن کلام حق ہے جو کہتا ہے حق اور سچ کا تکلم ہے، اور قرآن کریم میں ایک بھی مقام پر عورت کی تذلیل و تحقیر کا تذکرہ نہیں ہے بلکہ ہر جگہ اسے قابل قدر لائقِ صد افتخار بنا کر پیش کیا گیا ہے، برخلاف کلیسا کی کونسلوں اور منو سمرتی کے کہ ان میں جگہ جگہ عورت کو مطعون کیا گیا اور قابلِ نفرت شیئ بنا کر پیش کیا گیا ہے، قرآن عورت کو وہی مقام و مرتبہ دیتا ہے جو نظام کائنات میں فاطر کائنات نے اسے دے رکھا ہے، بہ حیثیت عبد اور مکلف مخلوق کے وہ مرد کے مساوی اور ہم رتبہ ہے لیکن دنیا کے انتظامی معاملات میں مرد کے تابع اور ماتحت ہے.
وہ کون سے رازہائے پنہاں اور مصلحتیں ہیں جن کی بناء پر اسلام نے عورت کو انتظامی امور سے دور رکھا ہے اور "الرجال قوامون علی النساء" کا صحیح مطلب کیا ہے اس کو ان شاء اللہ تعالیٰ اگلی قسط میں بیان کیا جائے گا.